خدارا کوئی اُن سے اتنا تو پوچھے
وہ کیوں آنکھ ہم سے چرانے لگے ہیں
انہیں تو نہ یوں بزم سےتم اٹھاتے
جنہیں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں
قضا نے بھی پایا نہ ان کا ٹھکانہ
تیرے ہاتھ سےجو ٹھکانے لگے ہیں
نہ جانے وہ اک لمحہء قرب کیا تھا
تعاقب میں جس کے زمانے لگے ہیں
جو ہنستے تھے کل تک میری بے بسی پر
وہ خود آج آنسو بہانے لگے ہیں
بہت بے سکوں ہے نصیر آج کوئی
تیرے اشک بھی رنگ لانے لگے ہیں