سفید شرٹ تھی تم سیڑھیوں پہ بیٹھے تھے
میں جب کلاس سے نکلی تھی مسکراتے ہوئے
ہماری پہلی ملاقات یاد ہے نا تمہیں
اشارے کرتے تھے تم مجھ کو آتے جاتے ہوئے
تمام رات وہ آنکھیں نہ بھولتی تھیں مجھے
کہ جن میں میرے لئے عزت اور وقار دکھے
مجھے یہ دنیا بیابان تھی مگر اک دن
تم ایک بار دکھے اور بے شمار دکھے
مجھے یہ ڈر تھا کہ تم بھی کہیں وہی تو نہیں
جو جسم پر ہی تمنا کے داغ چھوڑتے ہیں
خدا کا شکر ہے کہ تم ان سے مختلف نکلے
جو پھول توڑ کے غصے میں باغ چھوڑتے ہیں
زیادہ وقت نہ گزرا تھا اس تعلق کو
کہ اس کے بعد وہ لمحہ قریں قریں آیا
چھوا تھا تم نے مجھے اور مجھے محبت پر
یقین آیا تھا لیکن کبھی نہیں آیا
پھر اس کے بعد میرا نشۂ سکوت گیا
میں کشمکش میں تھی تم میرے کون لگتے ہو
میں امرتا تمہیں سوچوں تو میرے ساحر ہو
میں فارحہ تمہیں دیکھوں تو جون لگتے ہو
ہم ایک ساتھ رہے اور ہمیں پتہ نہ چلا
تعلقات کی حد بندیاں بھی ہوتی ہیں
محبتوں کے سفر میں جو راستے ہیں وہی
ہوس کی سمت میں پگڈنڈیاں بھی ہوتی ہیں
تمہارے واسطے جو میرے دل میں ہے حافیؔ
تمہیں میں کاش یہ سب کچھ کبھی بتا پاتی
اور اب مزید نہ ملنے کی کوئی وجہ نہیں
بس اپنی ماں سے میں آنکھیں نہیں ملا پاتی