غم زندگی بھی ہے زندگی جو نہیں خوشی تو نہیں سہی

غم زندگی بھی ہے زندگی جو نہیں خوشی تو نہیں سہی

سر طور ہو سر حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے

وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں

میں انہیں کا تھا میں انہیں کا ہوں وہ مرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے مری آرزو کا بھرم رہے

تری انجمن میں اگر نہیں تری انجمن کے قریں سہی

ترے واسطے ہے یہ وقف سر رہے تا ابد ترا سنگ در

کوئی سجدہ ریز نہ ہو سکے تو نہ ہو مری ہی جبیں سہی

مری زندگی کا نقیب ہے نہیں دور مجھ سے قریب ہے

مجھے اس کا غم تو نصیب ہے وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پر نہ اٹھائیے

جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیرؔ دیکھ ہی لیں گے ہم