مری ذات کے سکوں آ جا

ے مری ذات کے سکوں آ جا

تھم نہ جائے کہیں جنوں آ جا

رات سے ایک سوچ میں گم ہوں

کس بہانے تجھے کہوں آ جا

ہاتھ جس موڑ پر چھڑایا تھا

میں وہیں پر ہوں سر نگوں آ جا

یاد ہے سرخ پھول کا تحفہ؟

ہو چلا وہ بھی نیلگوں آ جا

چاند تاروں سے کب تلک آخر

تیری باتیں کیا کروں آ جا

اپنی وحشت سے خوف آتا ہے

کب سے ویراں ہے اندروں آ جا

اس سے پہلے کہ میں اذیت میں

اپنی آنکھوں کو نوچ لوں آ جا

دیکھ! میں یاد کر رہی ہوں تجھے

پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں آ جا