ہم ملیں گے کہیں اجنبی شہر کی خواب ہوتی ہوئی

ہم ملیں گے کہیں اجنبی شہر کی خواب ہوتی ہوئی
شاہراؤِں پہ اور شاہراوں پہ پھیلی ہوئی دھوپ میں
ایک دن ہم کہیں ساتھ ہوں گے
وقت کی آندھیوں سے اٹی ساعتوں پر سے مٹی ہٹاتے ہوئے ایک ہی جیسے آنسو بہاتے ہوئے

ہم ملیں گے گھنے جنگلوں کی ہری گھاس پر
اور کسی شاخ نازک پہ پڑتے ہوئے بوجھ کی داستانوں میں کھو جائیں گے
ہم صنوبر کے پیڑوں کے نوکیلے پتوں سے صدیوں سے سوئے ہوئے دیوتاوں کی آنکھیں چبھو جائیں گے

ہم ملیں گے کہیں برف کے بازوؤں میں گھرے پربتوں پر
‏بانجھ قبروں میں لیٹے ہوئے کوہ پیماؤں کی یاد میں نظم کہتے ہوئے
جو پہاڑوں کی اولاد تھےاور انہیں وقت آنے پہ ماں باپ نے اپنی آغوش میں لے لیا

ہم ملیں گے شاہ سلیمان کے عرس میں
حوض کی سیڑھیوں پر وضو کرنے والوں کے شفاف چہروں کے آگے
سنگ مرمر سے آراستہ فرش پر پیر رکھتے ہوئےآہ بھرتے ہوئے
‏اور درختوں کو منت کے دھاگوں سے آزاد کرتے ہوئے
‏ہم ملیں گے