اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے عالِمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

کون ہے تارکِ آئینِ رسُولِ مختارؐ

کون ہے تارکِ آئینِ رسُولِ مختارؐ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سلَف سے بیزار قلب میں سوز نہیں رُوح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغامِ محمّدؐ کا تمھیں پاس نہیں

تري دعا سے قضا تو بدل نہيں سکتي

تري دعا سے قضا تو بدل نہيں سکتي مگر ہے اس سے يہ ممکن کہ تو بدل جائے تري خودي ميں اگر انقلاب ہو پيدا عجب نہيں ہے کہ يہ چار سو بدل جائے وہي شراب  وہي ہاے و ہو رہے باقي طريق ساقي و رسم کدو بدل جائے تري دعا ہے کہ ہو تيري […]

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہوافغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا عرش والوں پہ بھی کھُلتا نہیں یہ راز ہے کیا تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے […]

عقل ہے تیری سِپَر عشق ہے شمشیر تری

عقل ہے تیری سِپَر عشق ہے شمشیر تری مرے درویش خلافت ہے جہاں‌گیر تری ماسِوَی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

حد ستم نہ کر کہ زمانہ خراب ہے

حد ستم نہ کر کہ زمانہ خراب ہے ظالم خدا سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے اتنا نہ بن سنور کہ زمانہ خراب ہے میلی نظر سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے بہنا پڑے گا وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ بن اس کا ہم سفر کہ زمانہ خراب ہے پھسلن قدم قدم پہ ہے […]

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال کہ ہے […]

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں […]

کیوں منتیں مانگتا ہے

کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے(اقبال) تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم پھُول تھا زیبِ چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم شرطِ انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عمیم بُوئے گُل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم ہم […]