تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد میں نے ایسے ہی گنہ تیری جدائی میں کئے جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر […]
اس شہر تمنا میں کوئی مجھ سا مکیں ہے
اس شہر تمنا میں کوئی مجھ سا مکیں ہے۔ آندھی میں چراغوں پہ جسے پورا یقین ہے۔ تعبیر بھلے چھین لے آنکھوں سے بصارت۔ ایک خواب حقیقت میں ، حقیقت سے حسیں ہے۔ بارش کی دعا تو ہے ، تو قوس قزاح میں۔ گر تجھ سا نہیں کوئی ، تو مجھ سا بھی نہیں ہے۔
پھروں ڈھونڈتا میکدہ توبہ توبہ مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں ہے
پھروں ڈھونڈتا میکدہ توبہ توبہ مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں ہے سلامت رہے تیری آنکھوں کی مستی مجھے مے کشی کی ضرورت نہیں ہ یہ ترک تعلق کا کیا تذکرہ ہے تمہارے سوا کوئی اپنا نہیں ہے اگر تم کہو تو میں خود کو بھلا دوں تمہیں بھول جانے کی طاقت نہیں ہے ہمیشہ […]
ہم بھی ہیں طلب گار تیری بزم سلامت ساقی تیرے قربان کوئی نظر
ہم بھی ہیں طلب گار تیری بزم سلامت ساقی تیرے قربان کوئی نظر ادھر بھی مانا کہ حیا آنکھ ملانے نہیں دیتی ممکن نہیں کیا ایک عنایت کی نظر بھی
خدارا کوئی اُن سے اتنا تو پوچھے
خدارا کوئی اُن سے اتنا تو پوچھے وہ کیوں آنکھ ہم سے چرانے لگے ہیں انہیں تو نہ یوں بزم سےتم اٹھاتے جنہیں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں قضا نے بھی پایا نہ ان کا ٹھکانہ تیرے ہاتھ سےجو ٹھکانے لگے ہیں نہ جانے وہ اک لمحہء قرب کیا تھا تعاقب میں جس کے زمانے […]
اس سے بڑھ کر بھی توجہ کی طلب ہے
اس سے بڑھ کر بھی توجہ کی طلب ہے تجھ کو چٹکیوں میں وہ تیری بات اُڑانے تو لگے تیرا کوچہ نہ سہی ، دامن صحرا ہی سہی میری مٹی کہیں کمبخت ٹھکانے تو لگے
وفا ہو کر ، جفا ہو کر ، حیا ہو کر ، ادا ہو کر
وفا ہو کر ، جفا ہو کر ، حیا ہو کر ، ادا ہو کر سمائے وہ مرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر مر اکہنا یہی ہے ، تُو نہ رُخصت ہو خفا ہو کر اب آگے تیری مرضی ، جو بھی تیرا مُدعا ہو ، کر نہ وہ محفل ، نہ وہ […]
کیا ہوا دل جو مٹا ، ہم کو نہ پچھتا نہ تھا
کیا ہوا دل جو مٹا ، ہم کو نہ پچھتا نہ تھا حسن والوں سے بڑی دیر کا یارا نہ تھا لاکھ ٹھکرایا ہمیں تونے ، مگر ہم نہ ٹلے تیرے قدموں سے الگ ہو کے کہاں جانا تھا
میں نے اپنی نیازمند پیشانی اس لیے در عشق پر رکھی ہوئی ہے کہ
میں نے اپنی نیازمند پیشانی اس لیے در عشق پر رکھی ہوئی ہے کہ نے اپنی نیازمند اس لیے در اپنے مغرور سر کو تیری راہ میں پائمال کروں
شعورِ غم ہے مگر شکوہ ستم تو نہیں
شعورِ غم ہے مگر شکوہ ستم تو نہیں وہ اور ہو گا کوئی بیقرار ہم تو نہیں جدا ہوا ہے تو پھر جان کی امان نہ دے ترے بغیر چینیں، ہم میں اتنا دم تو نہیں